احتساب -اک افسانہ، اک ڈرامہ

میاں محمد نواز شریف کو کر پشن کے جن سنجیدہ الزامات کا سامنا تھا ان میں سے سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو کوئی بھی اس قدر سنگین نہیں لگا کہ اس کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل کیا جا سکے بلکہ ایک ایسا اثاثہ جو کہ undeclared receivable کے لغوی معنی پہ پورا اترتا ہے اس قدر سنگین ہے کہ وہ ملکی وزیراعظم کی نااہلی کا سبب بن گیا... دو معزز جج صاحبان جو پہلے میاں صاحب کو مختلف اسباب کی بناء پر نااہل قرار دے چکے تھے، انہوں نے بھی اس فیصلے پر اپنے دستخط ثبت کر کے نئے سوالات کو جنم دے دیا ہے.... پہلے بھی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل، اس کے طرزِ عمل اور رپورٹ کی تیاری میں جو شواہد استعمال کئے گئے، ان پر اعتراضات نے  قانونی حلقوں کو حیرانگی میں مبتلا کر دیا گیا تھا. اب مزید عمران خان کے اس بیان نے ہلچل مچا دی ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک معزز جج نے یکم نومبر کو انہیں فون کر کے جلسے سے روکا تھا معزز جج صاحبان ایک صحافی کے رابطہ کرنے پر تو برھم ہوگئے (قانوناً یہ جرم نہیں) ، کیا ایک معزز جج کا ایک سیاستدان سے اس طرح کا رابطہ عین قانونی ہے؟؟؟ ...
اب زرا آئین کے آرٹیکل  62, 63 کا ذکر ہو جائے، جنرل ضیاء نے اپنے اقتدار کے تحفظ اور سیاستدانوں کو جمہوری عمل سے دور رکھنے کے لئے ان کے سر پر آرٹیکل  62,63 کی تلوار لٹکا دی،جس کی رو سے ہر ممبر اسمبلی کے لئے صادق اور امین (آج کے حالات میں بھی جب امانت کا تصور ہی ماندپڑچکاہے)، مذہب کا خاطرخواہ علم ہو (معذرت کے ساتھ صحابہ بھی اس قسم کے دعویّ سے گریز کرتے تھے) اور مذہبی شعار پر عمل کرتا ہو. اب صداقت، امانت اور دینداری کے اس اعلی پیمانے کو پرکھنے کے لیے کسی پیمانے کی تشکیل نا ممکنات میں سے ایک ہے. سئہ 2014 میں سپریم کورٹ نے ہی اس قانون کو اندھا کنواں قرار دیا. اٹھارویں ترمیم کے وقت بھی
اس قانون کے خاتمے کیلئے کوششیں کی گئیں مگر تب میاں نواز شریف نے اس عمل کی مخالفت کی اور آج وہ خود اس کا شکار ہو گئے. بقول شاعر
¶ لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا...



سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود سیاستدانوں نے ایک آمر کے بنائے ہوئے قانون کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی اور آج پاکستان کے پارلیمانی نظام کی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے. نواز شریف کی نااہلی کے بعد اب عمران خان کی نا اہلی کی راہ بھی کافی حد تک ہموار ہو گئی ہے اور شاید خان صاحب کو بھی اس بات کا اندازہ ہے یہئ وجہ ہے کہ خان صاحب نے اپنی شخصیت کے برعکس کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا. اب ایک بار پھر سے اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے. نواز شریف کی نااہلی اور عمران خان کے سر پر لٹکتی نااہلی کی ننگی تلوار نے اسٹیبلشمنٹ کے لیے کھیل کو مزید آسان بنا دیا ہے کیونکہ پیپلزپارٹی پہلے ہی عوام میں اپنی شناخت کھو چکی ہے. اور اب ذرا تذکرہ ملک کے طاقتور جرنیلوں کا بھی ہو جائے جو ہمیشہ “میرے عزیز ہموطنوں" کے پیچھے چھپ کر بد عنوانی کی نئی مثالیں جنم دیتے ہیں.
پچھلے ہفتے ایک عالمی جریدے (BBC) میں شائع ھونےوالی ایک خبرمیں اس بات کا انکشاف (صرف خبر کی حدتک) کیا گیا کہ پاکستان کی افواج کے زیر نگرانی قریباً پچاس کاروباری ادارے کام کر رہے ہیں. یہ تعداد ملک کی سویلین حکومت کے ذیر انتظام کاروباری اداروں سے بھی زیادہ ہے... یاد رہے کہ ملک میں افواج پاکستان کے اسٹر یٹجک فارمیشن کی اکائیوں سے بھی کہیں زیادہ ہے ! ..... سوال یہ ہے کہ عوامی ٹیکس کے پیسوں پر کا روبار کا حساب کتاب کون رکھتا ہے، آج تک اس کو عوام کے سامنے کیوں نہیں رکھا گیا، فوج کا بحیثیت دفاعی ادارے کے ان کاروباری اداروں سے کیا فوائد حاصل ہو تے ہیں ؟؟؟
حال ہی میں شائع ہونے والی ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میں کیئے جانے والے انکشافات کے بعد سلیم صافی کے جرگہ پروگرام میں جنرل (ر) اسد منیر نے آرمی کے کردار کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کئ بار آپ کو طاقتور کے سامنے جھکنا پڑتا ہے....
سوال یہ ہے کہ حضورِ والا طاقتور کی تعریف بھی کر دیتے،،،کیا طاقتور کی تعریف میں مشر قی سرحد کے پار موجود دشمن تو شامل نہیں؟؟
اور جس خوش اسلوبی اود دلجمعی سے طاقتور کے سامنے جھکا گیا اسی خوش اسلوبی سے فاٹا،بلوچستان اور وزیرستان کے حالات پر بھی نظر ثانی کر لیتے؟ 
مزید ستم یہ کہ مقتولین کے ورثا کی تلاش اور انہیں دیت کی رقم پر آمادہ کرنے کا بندوبست ملک کی ایک اعلی ایجنسی نے کیا تھا،، اسی جانفشانی سے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈا (یا دنیا کی نظروں میں حفاظت ) گیا ہوتا تو آج ہم عالمی تنہائی کا شکار نہ ہوتے،،،
جو رقم دیت میں ادا کی گئی اس کا انتظام بھی ملک کی اسی اعلی ایجنسی نے کیا تھا،،،، کیا یہ رقم عوام کے ٹیکس سے اکٹھی نہیں کی گئی؟؟
ماہ جون میں ہونے والی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل عاطف غیور نے کہا کہ فوج عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کر تی ہے......
سوال یہ ہے کہ جنرل (ر) مشرف صاحب کے بارے میں عدلیہ کے احکامات کا کیا ہوا، جنرل کیانی کے احتساب کا کیا ہوا؟؟؟
اس ملک میں ہر کام پردے کے پیچھے ہوتا ہے اور جو کوئی اس پردے کو ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اس کی حب الوطنی پر "سنجیدہ سوالات" اٹھائے جا تے ہیں.... پاکستان کے اقتدار کی طاقت کے حمام میں سب ننگے ہیں، طاقت کے حصول کی لڑائی میں نقصان صرف اور صرف پاکستان کا ہی ہوتا ہے .احتساب کا عمل ملکی ترقی کیلئے ناگزیر ہے مگر احتساب کی موجودہ شکل ملک اور قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے جس کے نتیجے میں ادارے کمزور اور شخصیات طاقتور ہو جائیں گی .. جس کے نتائج قوم ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو شہید، ضیاء الحق شہید، بینظیر بھٹو شہید، جنرل (ر) مشرف مفرور اور جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری جیسے خود ساختہ خداؤں کی شکل میں بھگت چکی ہے. موجودہ احتساب میں سزا کا بنیادی عنصر غائب ہے، اس احتساب کا بنیادی مقصد موجودہ ملکی  حکمران کی نااہلی ہے. اگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی تو تحقیقاتی ٹیم نیب کی بجائے ٹرائل کورٹ میں کیس چلانے ک سفارش کر تی . نواز شریف کا احتساب ضرور ہو نا چاہیےمگر جرم ثابت ہونے کی صورت میں سزا ہو نی چاہیے نہ کہ نااہل کر کے گھر بھیج کر سیاسی شہادت کے درجے پر فائز کر دیا جائے ..
اس بات کامجھے اندازہ بلکہ یقین ہے کہ فوج کا پانامہ کے انکشافات سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر چار سو افراد کی فہرست میں سے ایک خاندان کا اس طرح احتساب سوالات کو جنم دیتا ہے. ایک خاندان کے احتساب میں ہمیں ایک سال لگ گیا تو چار سو افراد کااحتساب کرنے میں تو ہمیں صدیاں بیت جائیں گی.... اور اس سال میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب ہمیں اس احتساب کے عمل کےلئے اداروں میں سے افسر ہی نہیں مل رہے تھے اور دوسری طرف دنیا میں حاکم وقت کے خاندان سے تحقیقات کےلئے کوئی پٹیشن دائر نہیں کی گئ بلکہ ٹرمپ جونیئر کے رشین سکینڈل کے منظر عام پر آتے ہی امریکی سینیٹ نے ایک طاقتور کمیٹی کو تحقیقات پر لگا دیا. اک طرف یہ مثال اور اک ھماری مملکتِ خداداد جہاں بدعنوانی کے خاتمے کیلئے اداروں کی بھرمار ہے مگر پھر بھی کرپٹ افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور جب شروع بھی ہو ئی تو اس کے مقاصد نے اس عمل پر سوالیہ نشان لگا دیا. ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے، احتساب کے عمل کو صرف سیاستدانوں تک محدود نہ کیا جائے بلکہ ہر طاقتور کا احتساب ہو خواہ وہ کوئی طاقتور جج ہو، کوئی بد عنوان بیوروکریٹ ہو یا پھر  آئین شکنی کا مرتکب جر نیل ہو. مگر احتساب کا مقصد صرف اور صرف مجرم کو کیفر کردار پہنچا نا ہو نا چاہیے.اسی طرح ممبر اسمبلی کیلئے صداقت اور امانت کے پیمانے کی بجائے علمی اور قانونی اہلیت کا پیمانہ رائج ہونا چاہیئے تاکہ کٹھ پتلیوں کا کھیل بند ہو سکے...