عمران خان اور "گرے کے پچاس رنگ"

شرح نمو منفی ١.٣ فیصد (٦٧ سالوں میں سب سے کم) ، شرح مہنگائی ١٤.٦ فیصد (١٣ سالوں میں سب سے زیادہ) ، تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے(١٣٠٠٠ ارب روپے صرف دو سالوں میں) ، سرکاری کاروباروں میں ٢.٨ کھرب کا نقصان، شرح بےروزگاری ٩ فیصد، آٹا ٥٠ روپے (تاریخ کا سب سے مہنگا نرخ)، چینی ٩٥ روپے(تاریخ کا سب سے مہنگا نرخ)، ڈالر ١٦٥ روپے (تاریخ کا بلند ترین
اس سب کا مقصد ہرگز عمران خان پر تنقید نہ ہے بلکہ اس میں ہم سب کیلئے ایک سبق ہے. ماضی میں بڑی بوڑھیاں رشتہ جوڑتے وقت شکل و صورت سے زیادہ "کارکردگی" (گھریلو کام کاج اور ذہنی پختگی) پر توجہ دیتی تھیں. اس لیے گھروں میں خوشحالی اور َخاندانوں میں محبت برقرار رہتی تھی. ہیر رانجھا، سوہنی ماھیوال اور مرزا صاحباں جیسی عشق محبت کی داستانیں رومانوی تصور کی جاتی تھیں. 
 
پھر زمانے بدلے. لوگ ظاہری حسن کے دلدادہ ہو نے لگے. "وارث شاہ" کی جگہ "ایریکا لیونارڈ جیمز" نے لے لی. "ہیر رانجھا" کی جگہ "گرے کے پچاس رنگوں" نے لے لی. اسی ظاہری حسن کے چلتے بیچارے ہمارے مخدومیںن اور رحمان ملک صاحب آج کل کچھ شرمائے شرمائے پھر رہے ہیں. وگرنہ ان کی داستانوں میں رومانیت  "گرے کے پچاس رنگوں" سے کچھ کم نہیں. اور بیچاری عوام جو کل تک یہ کہہ رہی تھی "جب آئے گا عمران" اب پیٹرول ڈھونڈتے پچھتا رہی ہے کہ "کیوں آگیا عمران"؟ مگر اب بھی کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں"خوبصورت تو ہے نا". پھر سے مجھے گرے کے پچاس رنگوں والی سٹیلے یاد آگئی جو انتہائی" نامساعد حالات" کے باوجود "کرسچین گرے" کا انتظار کرتی رہتی ہے. وہ لوگ بھی صبر کریں. آ نے والے دنوں میں وہ بھی رحمان ملک کی طرح شرمائے شرمائے پھریں گے. آخر میں سٹیلے کی طرح سب کچھ لٹا کر انہیں یاد آئے گا کہ ان کا کرسچین گرے ان کیلئے ایک غلط انتخاب ہے.

Comments